Wasim Hamdani

Add To collaction

الیکشن اور مُلکی حالات

آداب!

وطنِ عزیز میں آج کل انتخابی چناؤ کا دور دورہ ہے، سیاسی منظر نامے اور سیاسی جماعتوں میں کافی ہلچل پائی جاتی ہے۔ انتخابات عین سر کے اوپر ہیں لہذا اسی ضمن میں ملکی سیاسی جماعتوں کے وہ نمائندگان جنھیں جماعتوں کی جانب سے اپنے اپنے حلقوں پر الیکشن میں حصہ لینے کے لیے پروانے مل چکے ہیں، آجکل قریہ قریہ، بستی بستی اور گھاٹ در گھاٹ اپنی مہم چلاتے نظر آ رہے ہیں، ان میں سے ہر ایک کی کوشش یہی ہے کے ووٹ انہی کو ملے اور اپنے مینڈیٹ کے مطابق عوامی مسائل کے حل کے کوشاں ہوں، پر بدقسمتی سے ایسا صرف میں سوچ ہی سکتا ہوں کیونکہ ملکی  76 سالہ تاریخ میں ایسا ایک بار بھی نہیں ہوا کہ عوام کی سُنی گئی ہو اور ان کے مسئلے ترجیحی بنیادوں پر حل ہوئے ہوں۔ جبکہ سیاسی منطر نامے پہ کوئی بھی جماعت کسی منشور کے مطابق کام کرتی نظر نہیں آ رہی، ان سب کے پیچھے جو قوتیں کاربند ہیں وہ روزِ روشن کی طرح عیاں ہیں اور ان کے عزائم بھی پورے ہوتے نظر آتے ہیں۔

ابھی چند سال قبل ملک کی ایک بہت بڑی جماعت کے لیڈر کو پابند سلاسل کر کہ قدغن لگا دی گئی اور قدغن بھی ایسی کے اس جماعت کے کسی رکن کا الیکشن میں حصہ لیتا نظر آنا تو کجا پارٹی پرچم تک آویزاں کرنے پر پابندی عائد ہے۔ ابھی کل تک تو یہی جماعت ملکی عہدیداروں کی نہایت من پسن اور چہیتی جماعت سمجھی جاتی تھی جبکہ آج کے دن سب برعکس اور حالات بہت ابتر ہوتے نظر آ رہے ہیں...

قارئین!

اسی تناظر اور موجودہ منظر نامے کو دیکھتے ہوئے میں یہ کہنے پر مجبور ہوں کہ ہماری قسمت میں "لیڈر" نہیں "دھندے والے لوگ" ہیں۔ وطنِ عزیز اور اپنے ہمسایہ ملک بھارت کے سیاسی نظام کا اگر تقابل کیا جائے تو یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ ہم اس معاملے میں یتیم و غریب واقع ہوئے ہیں، آئیے آپ کو ہندوستان کے ایک ایسے ہی رہنما کا قصہ سُناتے ہیں تاکہ آپ فیصلہ کرنے میں کامیاب ہو سکیں۔

جواہر لال کے والد نے بیٹے کو شاہی خاندان کی طرح پڑھایا، نوابوں جیسی پرورش کی، کیمبرج یونیورسٹی میں تعلیم دلائی اور جب وہ بیرسٹر بن کر ہندوستان واپس آگئے تو انہیں الٰہ آباد میں اچھے کلائنٹس لے کر دیئے۔

لیکن جواہر لال نہرو کمیونسٹ ذہنیت کے مالک تھے ، وہ سیاست میں آ کر معاشرے میں مساوات پیدا کرنا چاہتے تھے۔

والد نے بہت سمجھایا مگر جب دال نہ گلی تو انہوں نے ایک دن جواہر لال نہرو کی الماری سے سارے قیمتی سوٹ، جوتے اور سگار نکالے اور دوستوں کے بچوں میں تقسیم کر دیئے اور ان کی جگہ ‏کھدر کے دو پائجامے اور تین کرتے لٹکا دیے اور ہاتھ سے بنی ہوئی دیسی جوتی رکھوا دی۔ جواہر لال کے کمرے سے سارا فرنیچر بھی اٹھوا دیا گیا، فرش پر کھردری دری اور موٹی چادر بچھا دی اور خانساماں کو حکم دے دیا تم کل سے صاحبزادے کو جیل کا کھانا دینا شروع کر دو اور بیٹے کا جیب خرچ ‏بھی بند کر دیا گیا۔ جواہر لال نہرو نے جب اپنے کمرے کا یہ حال دیکھا تو رات کو مسکراتے ہوئے والد کے پاس آئے، بڑے نہرو صاحب اس وقت اسٹڈی میں ٹالسٹائی کا ناول وار اینڈ پیس پڑھ رہے تھے۔ بیٹے نے پوچھا; آپ مجھ سے خفا ہیں ؟ موتی لال نے کتاب سے نظریں اٹھائیں اور نرم آواز میں جواب دیا: میں تم سے ناراض ہونے والا دنیا کا آخری شخص ہوں گا۔

چھوٹے نہرو نے پوچھا؛

پھر آپ نے اتنا بڑا آپریشن کیوں کر دیا...؟ والد نے بیٹے سے کہا؛ صاحب زادے، تم نے جو راستہ چنا ہے اس میں ‏جیل، بھوک اور خواری کے سوا کچھ نہیں، میں چاہتا ہوں تم آج ہی سے ان تمام چیزوں کی عادت ڈال لو جو اس راستے میں تمہیں پیش آنے والی ہیں۔

دوسرا یہ کہ غریب کے پاس اعتبار کے سوا کچھ نہیں ہوتا لہٰذا یہ انتہائی سوچ سمجھ کر دوسروں پر اعتبار کرتے ہیں. تم اگر عام آدمی کی بات کرنا چاہتے ہو تو پھر تمہیں خود بھی عام آدمی ہونا چاہیے۔

تم انگلینڈ کے سوٹ اور اٹلی کے جوتے پہن کر غریب کی بات کرو گے تو ‏تم پر کوئی اعتبار نہیں کرے گا میں نہیں چاہتا دنیا میرے بیٹے کو منافق کہے...! چنانچہ تم آج سے وہ کپڑے  پہنو گے جو غریب پہنتا ہے اور تم اتنے  پیسے  ہی خرچ کرو گے جتنے غریب کی جیب میں ہوتے ہیں...!

جواہر لال نہرو نے والد کا ہاتھ چوما اور پھر مرنے تک کھدر کے کپڑے اور دیسی جوتے پہنے اور غریبوں جیسا سادہ کھانا کھایا...!

ہمارے ملک کا سب سے بڑا المیہ ایسی لیڈر شپ کا فقدان ہے۔ پاکستان میں لیڈروں کا تعلق عموماً ایسے گھرانوں سے ہے جو ملکی خزانہ لوٹنے کے بعد یا زکوۃ خیرات کے پیسوں پر عیاشی کرتے ہیں۔ ہم ڈرٹی پالیٹکس کے ایک خوف ناک جوہڑ میں غوطے کھا رہے ہیں۔ ملک کی تینوں بڑی سیاسی جماعتیں غریبوں کی باتیں ضرور کرتی ہیں لیکن ان کے لیڈروں کا لائف ‏سٹائل اور ان کی شخصیت ان کی باتوں سے میچ نہیں کرتی۔

ہزاروں کنال کے بنگلوں اور فارم ہاؤسز میں رہنے والے ، کئی کئی لاکھ ماہانہ تنخواہ اور دنیا بھر کی مراعات و پروٹوکول لینے والے ، بیرون ملک بڑے گھر اور بینک بیلنس رکھنے والے بلٹ ‏پروف گاڑی اور جہاز و ہیلی کاپٹر کو گلی کے موٹر سائیکل کی طرح استعمال کرنے والے ہمارے تمام وزیراعظم ایک غریب ملک کے رہنما نہیں ہوسکتے۔

اگر رہنما لینا ہے تو غریب عوام سے لیں جو عام شہریوں کی طرح پانچ سات مرلہ کے گھر میں رہے. جرمن چانسلر اینجلا کی طرح دو تین سوٹوں اور ایک ہی کوٹ کیساتھ پانچ سالہ دور اقتدار پورا کرے اور دنیا بھر میں کروڑوں لوگوں کو اپنے کردار سے گرویدہ بنا لے۔

ایرانی صدر احمدی نژاد کی طرح دو دفعہ صدر رہنے کے بعد تہران کی ایک یونیورسٹی میں لیکچرار کی نوکری کرے۔ باراک اوباما کی طرح صدارت سے فارغ ہو کر کرایہ کا مکان ڈھونڈتا پھرے۔

افسوس کہ پاکستانی اور بالخصوص غلامانہ ذہنیت والوں سے یہ توقع عبث ہے۔ ہماری قسمت میں لیڈر نہیں دھندے والے لوگ ہیں۔

والسلام سید وسیم ہمدانی صحرائی۔

   15
1 Comments

Mohammed urooj khan

13-Feb-2024 06:48 PM

👌🏾👌🏾👌🏾

Reply